وعدہ کے مطابق طلاق دینا کیسا؟

(12)موضوعات

(5) مفتیان کرام

تاریخ

07/05/2017

حوالہ

AZT-24441

ایک لڑکے نے اپنی منگیتر سے میسیج پر لکھا کہ اگر اس کا بائیک پر سے ایکسیڈنٹ ہوگیا اور وہ معذور ہوگیا ٹانگوں سے تو وہ اس سے خدمت نہیں کروائے گا بلکہ اسے آزاد کردے گا پھر وہ توبہ کرتا ہے کہ یہ کیا کہہ دیا۔ کیا اب شادی کے بعد وہ ایسا کریں؟ (ذیشان)

الجواب بعون الملك الوهاب

صورت مسئولہ میں  اگر آپ کابائیک پر سے ایکسیڈنٹ ہوجاتاہے اورآپ ٹانگوں سے معذور ہوجاتے ہیں تو اس کے باوجودآپ کا شادی کے بعد  اپنی بیوی سے خدمت لینا اور اسے آذاد نہ کرنا(یعنی طلاق نہ دینا )جائزہے)  کیو نکہ یہ محض ایک وعدہ  ہےجس کے پورا کرنے پر جبر نہیں ہے ۔اگرچہ وعدہ کا پورا کرنا شرع محبوب اور خلاف ورزی ناپسندیدہ اور مکروہ تنزیہی ہے مگر بیوی کو طلاق دینا اس سے ذیادہ نا پسندیدہ اور مبغوض ہے  

 

اس طرح ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضاخان قادری بریلوی علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں

ایسے وعدہ کی وفا پر جبر نہیں ہوسکتا

 ہندیہ واشباہ وبزازیہ وغیرہما میں ہے : لاجبر علی الوفاء بالوعد۱ ؎۔ واﷲ تعالٰی  اعلم۔ وعدہ وفائی پر جبرنہیں۔ واﷲتعالٰی  اعلم(ت)

(۱؎ فتاوٰی  ہندیہ    کتاب الاجارہ     الباب السابع        نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۴۲۷)

(الاشباہ والنظائر     الفن الثانی     کتاب الحظر والاباحہ    دارالقرآن کراچی    ۲ /۱۱۰)

(العقود الدریۃ        مسائل و فوائد شتی من الحظر والاباحۃ    ارگ بازار قندھار افغانستان     ۲ /۳۵۳)

(فتاوٰی رضویہ ،ج ۱۸ص۹۴)

اس طرح کے ایک  اورسوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضاخان قادری بریلوی علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں

اور ایفائے وعدہ شرعا محبوب اور خلف وعدہ ناپسند ومکروہ

(فتاوٰی رضویہ ،ج۱۱،ص۲۲) واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم